9/12/2017

توکل از تبسم


     آج پھر صبح ہی سے برتنوں کی توڑ پھوڑ جاری تھی.اسے جلد ہی کھانا بنا کر اپنے سکول کے لیے نکلنا تھا اور سکول شروع ہونے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا.روزانہ ہی ایسا ہوتا وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر کے تمام کام کر لیتی مگر جب ناشتے کا وقت آتا تو وہ جلدی سے کھانا چنگیر میں رکھتی چند گھونٹ چائے کے لیتی اور یہ جا وہ جا. اس کا تمام غصہ اس دور ان برتنوں پر ہی نکلتا تھا.وہ جتنا وقت کی بچت کرتی اتنا ہی وقت تیزی سے نکل جاتا اب بھی اس نے اماں کو مطلع کیا کہ وہ جا رہی ہے اور چائے کا کپ رکھتی چلی گئ.
ناعمہ ایک متوسط گھرانے کی پروردہ تھی.اس نے ایم_اے اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا.اور اب وقت گزاری کے لیے قریب ہی سکول میں ٹیچر کی جاب کر رہی تھی.گھر میں تین افراد تھے ایک ناعمہ اور اس کا بھائ احسن.جب ناعمہ اور احسن کی تعلیم کے کچھ ہی سال بچے تھے جب ان کے والد اس دنیا سے چلے گئے.وہ سرکاری ملازم تھے تو پینشن سے ان کا گزر بسر ہوتا رہا اور جیسے ہی ناعمہ کی تعلیم مکمل ہوئ۔ اس نے جاب کے بارے میں سوچا .بھائ تو کبھی اس بات کی اجازت نہ دیتامگر ناعمہ نے یہ کہ کر منا لیا کہ سکول بھی قریب ہے اور تنخواہ بھی مناسب مل رہی تھی سو آنے جانے کا کوئ مسئلہ نہ تھااور وہ اماں کو پریشان بھی نہیں کرے گی .احسن اس سے دو سال چھوٹا تھا وہ سوفٹوئر انخینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ پارٹ ٹائم جاب میں بھی مصروف تھا. یہ اس کے دوست کی اکیڈمی تھی جس میں وہ کمپیوٹر کے اسٹوڈنٹس کو ٹیوشن دیتا تھا.اسکے جاتے ہی اماں کچن میں آئیں تو حسب معمول چائے کا آدھا کپ یونہی میز پہ دھرا تھا. "کتنی بار کہا ہے اس لڑکی کوکہ ڑھنگ سے ناشتہ کر کے جایا کر مگر نہیںمجال ہے جو میری ایک بھی بات پر کان دھرے ہوں".انہوں نے باقی کا کپ سنک میں انڑیلا اور کپ دھو کر کچن سلیب پر رکھا. یہ روز کا ہی معمول تھا.وہ ایسے ہی بولتی جاتیں اور ناعمہ کے چھوڑے ہوے کام بھی کرتی جاتیں.ابھی وہ سنک میں پڑے برتنوں کا ڈھیر دھو کر فارغ ہوئ تھیں کہ کام والی آ گئ.اب اس نےتمام کمروں کے جھاڑو لگا کر ڈسٹنگ بھی کر دی .مشین ہفتے میں ایک ہی دن لگتی تھی اتوار کو جب ناعمہ گھر پہ ہوتی تھی .اب اماں نے اسکو بھیج کر نا صرف  سبزی منگوائ بلکہ کاٹ کر چڑھانے لگیں، تو ملازمہ بول پڑی بیبی جی!چھوٹی بیبی آ کر چڑھا دیں گی ہنڈیا مگر نہیں "ارے نہیں!بیچاری بچی تھکی ہاری آتی ہے سکول سے اور آتے ہی کاموں میں جت جاتی ہے"."لیکن بی بی جی!آپ کی تو طبیعت ٹھیک نہیں رہتی" ."کچھ نہیں ہوتا میری طبیعت کو بس زدا میری ٹانگیں دبا دینا". اور پھر وہی ہوا ناعمہ کے آنے سے پہلے اماں سب کر چکی تھیں.یہ کام والی بھی ناعمہ نے بصد اصرار رکھی تھی کیونکہ اب اماں بیمار رہنے لگی تھیں بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رہتا تھا سو پڑوسن سے بات کر کے ایک ملازمہ کا بھی بندوبست ہو گیا.ناعمہ نہا کر کپڑے بدل کر آئ تو فریج سے گندھا ہوا آٹا  نکال کر چپاتیاں ڈال دیں اور  وہیں میز پر بیٹھ کر کچن میں دونوں نے کھانا کھا لیا اوردو کپ چائے بنا کر اماں کے پاس آکر بیٹھ گئ ."آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ کام کو ہاتھ مت لگایا کریں، لیکن پھر بھی آپ.....!"۔"ارے نہیں بیٹا!اتنا تو کرنے دیا کرو ورنہ میں بستر پر پڑی مریضہ بن جاؤں گی مجھے کام کرنا اچھا لگتا ہے اور تو بھی تو سکول سے تھکی ہوئ آتی ہے". "نہیں امی"  ناعمہ منہ بسور کر رہ گئ. پھر جب وہ شام کو سو کر اٹھی تو احسن یونیورسٹی سے آ چکا تھا اور کھانا کھا کر اکیڈمی جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا.اسے دیکھتے ہی بولا: "ایک کپ گرما گرم چائے پلا دو اکیڑمی کے لئے لیٹ ہو رہا ہوں."ابھی لاتی ہوں"۔ اسنے تین کپ چائے کے ساتھ کچھ کٹلس اور شامی کباب بھی بنا لئیے.ٹرے لا کر اس نے باہر صحن میں تخت پر اماں کے پاس  رکھ دیا.اماں بھی جیسے انتظار میں بیٹھی تھیں.اسکے آتے ہی شروع ہو گئیں ."اب تو جلدی سے تیرے ہاتھ پیلے کروں اور احسن کی دلہن لاوں .کب تک بیٹی کو گھر بٹھائے رکھوں گی". "نہیں امی پلیز پہلے میں احسن بھائ کے لئے دلہن لاؤں گی پھر اپنے بارے میں سوچوں گی". "ارے پگلی!اس کی نوکری پکی ہو گی تو دلہن بھی آ جائے گی". کچھ بھیا کا لحاظ بھی تھا اور شرم بھی آڑے آ گئ ناعمہ چپ سی ہو گئ.جبکہ احسن اس کی چوٹی کھینچ کر بولا "ہاں اماں اب اسے جلدی سے چلتا کریں اب اس کا کوئ بہانہ نہیں چلے گا" ہنستے ہوے."مت چھیڑا کرو بہن کو چلی جائے گی تو یاد کرو گے" اور وہ اماں کے پیچھے بیٹھ کر اسے انگوٹھا دکھانے لگی.اسی نوک جھونک میں شام کی چائے ختم ہوئ اور وہ بھی برتن اٹھاتی اندر چلی گئ۔ احسن ماں کی دعائیں لیتا گیٹ سے باہر چلا گیا.ابھی اسے کچن کا کام ختم کر کے کاپیاں بھی دیکھنی تھیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے وہ ساتھ لے آئ تھی رات کے کھانے کے لئےاس نے چاول بھگو دیئے تھے چائنیز رائس کے لئے اور دوپہر کے سالن کے ساتھ چپاتیاں بھی دو چار بنالیں۔ پھر جب اماں اور احسن کو رات کی چائے دے کر آئ تو اماں کو دوا بھی دے دی۔  وہ اپنے اور اماں کے مشترکہ کمرے میں آئ تو نو بج چکے تھے.اس نے کاپیوں کا بنڈل اٹھایا اور بیڈ سے کچھ فاصلے پر  رکھے میز پر بیٹھ کر کاپیاں دیکھنے لگی۔ ابھی کچھ ہی کاپیاں دیکھی تھیں کہ نیند کا شدید غلبہ ہونے لگا اور وہ سونے کے لئے لیٹ گئ. یوں بھی صبح جمعہ تھا اور سکول میں ہاف ڈے تھا۔ اس نے بہت ہی کم پیریڈ اٹینڈ کرنے تھے،  پہلے دو پیریڈ لینے کے بعد ناعمہ فری تھی تو اس نے سوچا کے باقی کی کاپیاں سکول میں ہی دیکھ لے گی. لیکن بستر پر جانے سے پہلے اس نے ایک بات ضرور سوچی تھی کہ سکول کی میڈم کا صاحبزادہ جو نیا نیا سکول جوائن کر چکا تھا وہ پہلی ہی ملاقات میں ناعمہ کے لیے دل میں خاص جگہ بنا چکا تھا اور ڈھکے چھپے انداز میں اس کا اظہار بھی کر چکا تھا. اسے مزید اپنے قریب کرنے کی بجائے نہ صرف سرزنش کرئے گی بلکہ اس کو اس بار صاف صاف کہہ دے گی کہ اگر وہ اس میں انٹرسٹڈ ہے تو باقائدہ رشتہ لے کر آئے.ناعمہ ایک متوسط گھرانے کی پروردہ تھی.اس نے ایم_اے اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا.اور اب وقت گزاری کے لیے قریب ہی سکول میں ٹیچر کی جاب کر رہی تھی.گھر میں تین افراد تھے ایک ناعمہ اور اس کا بھائ احسن.جب ناعمہ اور احسن کی تعلیم کے کچھ ہی سال بچے تھے جب ان کے والد اس دنیا سے چلے گئے.وہ سرکاری ملازم تھے تو پینشن سے ان کا گزر بسر ہوتا رہا اور جیسے ہی ناعمہ کی تعلیم مکمل ہوئ۔ اس نے جاب کے بارے میں سوچا .بھائ تو کبھی اس بات کی اجازت نہ دیتامگر ناعمہ نے یہ کہ کر منا لیا کہ سکول بھی قریب ہے اور تنخواہ بھی مناسب مل رہی تھی سو آنے جانے کا کوئ مسئلہ نہ تھااور وہ اماں کو پریشان بھی نہیں کرے گی .احسن اس سے دو سال چھوٹا تھا وہ سوفٹوئر انخینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ پارٹ ٹائم جاب میں بھی مصروف تھا. یہ اس کے دوست کی اکیڈمی تھی جس میں وہ کمپیوٹر کے اسٹوڈنٹس کو ٹیوشن دیتا تھا.اسکے جاتے ہی اماں کچن میں آئیں تو حسب معمول چائے کا آدھا کپ یونہی میز پہ دھرا تھا. "کتنی بار کہا ہے اس لڑکی کوکہ ڑھنگ سے ناشتہ کر کے جایا کر مگر نہیںمجال ہے جو میری ایک بھی بات پر کان دھرے ہوں".انہوں نے باقی کا کپ سنک میں انڑیلا اور کپ دھو کر کچن سلیب پر رکھا. یہ روز کا ہی معمول تھا.وہ ایسے ہی بولتی جاتیں اور ناعمہ کے چھوڑے ہوے کام بھی کرتی جاتیں.ابھی وہ سنک میں پڑے برتنوں کا ڈھیر دھو کر فارغ ہوئ تھیں کہ کام والی آ گئ.اب اس نےتمام کمروں کے جھاڑو لگا کر ڈسٹنگ بھی کر دی .مشین ہفتے میں ایک ہی دن لگتی تھی اتوار کو جب ناعمہ گھر پہ ہوتی تھی .اب اماں نے اسکو بھیج کر نا صرف  سبزی منگوائ بلکہ کاٹ کر چڑھانے لگیں، تو ملازمہ بول پڑی بیبی جی!چھوٹی بیبی آ کر چڑھا دیں گی ہنڈیا مگر نہیں "ارے نہیں!بیچاری بچی تھکی ہاری آتی ہے سکول سے اور آتے ہی کاموں میں جت جاتی ہے"."لیکن بی بی جی!آپ کی تو طبیعت ٹھیک نہیں رہتی" ."کچھ نہیں ہوتا میری طبیعت کو بس زدا میری ٹانگیں دبا دینا". اور پھر وہی ہوا ناعمہ کے آنے سے پہلے اماں سب کر چکی تھیں.یہ کام والی بھی ناعمہ نے بصد اصرار رکھی تھی کیونکہ اب اماں بیمار رہنے لگی تھیں بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رہتا تھا سو پڑوسن سے بات کر کے ایک ملازمہ کا بھی بندوبست ہو گیا.ناعمہ نہا کر کپڑے بدل کر آئ تو فریج سے گندھا ہوا آٹا  نکال کر چپاتیاں ڈال دیں اور  وہیں میز پر بیٹھ کر کچن میں دونوں نے کھانا کھا لیا اوردو کپ چائے بنا کر اماں کے پاس آکر بیٹھ گئ ."آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ کام کو ہاتھ مت لگایا کریں، لیکن پھر بھی آپ.....!"۔"ارے نہیں بیٹا!اتنا تو کرنے دیا کرو ورنہ میں بستر پر پڑی مریضہ بن جاؤں گی مجھے کام کرنا اچھا لگتا ہے اور تو بھی تو سکول سے تھکی ہوئ آتی ہے". "نہیں امی"  ناعمہ منہ بسور کر رہ گئ. پھر جب وہ شام کو سو کر اٹھی تو احسن یونیورسٹی سے آ چکا تھا اور کھانا کھا کر اکیڈمی جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا.اسے دیکھتے ہی بولا: "ایک کپ گرما گرم چائے پلا دو اکیڑمی کے لئے لیٹ ہو رہا ہوں."ابھی لاتی ہوں"۔ اسنے تین کپ چائے کے ساتھ کچھ کٹلس اور شامی کباب بھی بنا لئیے.ٹرے لا کر اس نے باہر صحن میں تخت پر اماں کے پاس  رکھ دیا.اماں بھی جیسے انتظار میں بیٹھی تھیں.اسکے آتے ہی شروع ہو گئیں ."اب تو جلدی سے تیرے ہاتھ پیلے کروں اور احسن کی دلہن لاوں .کب تک بیٹی کو گھر بٹھائے رکھوں گی". "نہیں امی پلیز پہلے میں احسن بھائ کے لئے دلہن لاؤں گی پھر اپنے بارے میں سوچوں گی". "ارے پگلی!اس کی نوکری پکی ہو گی تو دلہن بھی آ جائے گی". کچھ بھیا کا لحاظ بھی تھا اور شرم بھی آڑے آ گئ ناعمہ چپ سی ہو گئ.جبکہ احسن اس کی چوٹی کھینچ کر بولا "ہاں اماں اب اسے جلدی سے چلتا کریں اب اس کا کوئ بہانہ نہیں چلے گا" ہنستے ہوے."مت چھیڑا کرو بہن کو چلی جائے گی تو یاد کرو گے" اور وہ اماں کے پیچھے بیٹھ کر اسے انگوٹھا دکھانے لگی.اسی نوک جھونک میں شام کی چائے ختم ہوئ اور وہ بھی برتن اٹھاتی اندر چلی گئ۔ احسن ماں کی دعائیں لیتا گیٹ سے باہر چلا گیا.ابھی اسے کچن کا کام ختم کر کے کاپیاں بھی دیکھنی تھیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے وہ ساتھ لے آئ تھی رات کے کھانے کے لئےاس نے چاول بھگو دیئے تھے چائنیز رائس کے لئے اور دوپہر کے سالن کے ساتھ چپاتیاں بھی دو چار بنالیں۔ پھر جب اماں اور احسن کو رات کی چائے دے کر آئ تو اماں کو دوا بھی دے دی۔  وہ اپنے اور اماں کے مشترکہ کمرے میں آئ تو نو بج چکے تھے.اس نے کاپیوں کا بنڈل اٹھایا اور بیڈ سے کچھ فاصلے پر  رکھے میز پر بیٹھ کر کاپیاں دیکھنے لگی۔ ابھی کچھ ہی کاپیاں دیکھی تھیں کہ نیند کا شدید غلبہ ہونے لگا اور وہ سونے کے لئے لیٹ گئ. یوں بھی صبح جمعہ تھا اور سکول میں ہاف ڈے تھا۔ اس نے بہت ہی کم پیریڈ اٹینڈ کرنے تھے،  پہلے دو پیریڈ لینے کے بعد ناعمہ فری تھی تو اس نے سوچا کے باقی کی کاپیاں سکول میں ہی دیکھ لے گی. لیکن بستر پر جانے سے پہلے اس نے ایک بات ضرور سوچی تھی کہ سکول کی میڈم کا صاحبزادہ جو نیا نیا سکول جوائن کر چکا تھا وہ پہلی ہی ملاقات میں ناعمہ کے لیے دل میں خاص جگہ بنا چکا تھا اور ڈھکے چھپے انداز میں اس کا اظہار بھی کر چکا تھا. اسے مزید اپنے قریب کرنے کی بجائے نہ صرف سرزنش کرئے گی بلکہ اس کو اس بار صاف صاف کہہ دے گی کہ اگر وہ اس میں انٹرسٹڈ ہے تو باقائدہ رشتہ لے کر آئے.اسے یاد تھا کہ ابا کی زندگی میں جو رشتے جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے وہ ابا کے جانے کے بعد کس طرح سے منہ موڑ گئے تھے. اس کے لیے پھوپھو کے گھر میں باقائدہ رشتہ طے ہوا تھا اور وہ لوگ منہ میٹھا کر کے گئے تھے مگر ابا کے جاتے ہی انہوں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں پہلے تو آنا ہی ختم کر دیا لیکن جب اماں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں رشتے کی بابت دریافت کیا تو پھوپھو کہنے لگیں "میرا بھائی زندہ ہوتا تو شاید مجھے کچھ دے دلا دیتا اب تو وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہا تم خالی خولی بیٹی میرے ہاتھ میں تھما دو گی اسلیے میری طرف سے صاف انکار سمجھو. لیکن اگر تم چاہو تو احسن کے لیے میں اپنی ہادیہ دینے کو تیار ہوں. پھوپھو کی طرف سے ایسی بات سن کر اماں کو تو جیسے چپ لگ گئی پھر اس پریشانی میں بی_پی بھی ہائی رہنے لگا. ابا ہمیشہ دیتے دلاتے رہتے تھے اور انہوں نے اپنے میکے والوں پر بہت کچھ خرچ کیا تھا. مگر ان کی طرف انکار نے اماں کا دل ہی برا کر دیا. ناعمہ سنتی نہیں تھی مگر دیکھ تو سکتی تھی سب سمجھتی تھی مگر اماں کو دکھانے کے لیے خوش رہتی .احسن نے بھی زبیدہ بیگم کی بات سن کر صاف انکار کر دیا تھا اور اماں سے کہہ دیا کہ اب کسی رشتہ دار سے امید نہ باندھیں میرے ساتھ یونیورسٹی میں کلاس فیلو ہے میں اسی سے شادی کروں گا.وقت نے پرانے زخم بھر دیئے اور حالات نے پلٹا کھایا.اگلی صبح جب ناعمہ اپنے فکسچر لینے کے بعد سٹاف روم میں باقی کی کاپیاں چیک کرنے میں مصروف تھی تو پرنسپل صاحبہ نے اسکو بلایا تھا .بہت ہی سوفٹ نیچر کی مس طاہرہ حبیب نے ناعمہ سے اسکے ماں باپ اور بیک گراونڈ اور خاص طور پر شادی نہ ہونے کی وجوہات کی بابت سوال کیے تو اس نے سچ سچ سب کچھ بتایا تھا تب انہوں نے اپنے بیٹے کی پسندیدگی کا بتا کر اس کی رضامندی پوچھی ساتھ میں کہنے لگیں کہ: "سچ پوچھو تو تم مجھے بھی بہت اچھی لگی ہو اور میرا بیٹا کافی عرصے سے شادی کو منع کر رہا ہے تم پہلی ہو جواس کو پسند آئ ہے اور وہ شادی کے لئے رضامند ہوا ہے"۔ تو ناعمہ نا چاہتے ہوئے  بھی انکار نہ کر پائ۔ اسی شام احسن نے گھر آتے ہی ماں کو الیشبہ کی طرف جانے کا کہہ دیا.چلبلی طبیعت کی مالک احسن کی یہ کلاس فیلو اسے  بہت پسند تھی.بس اسے وقت کا مناسب وقت کا انتظار تھا اور وہ وقت آگیا تھا .کئ عرصے بعد اس گھر میں شہنائاں گونجی تھیں۔ ناعمہ دل سے خوش تھی.آج گھر میں کافی گہماگہمی تھی .زبیدہ بیگم نےسب ہی رشتہ داروں کو بلایا تھا کیونکہ ناعمہ کے ساتھ آج احسن کی بھی منگنی تھی.جیسے ناعمہ نے سر عبید سے بات کی تھی وہ فوراّ مان گئے تھے اور احسن کی معلومات نے اماں کو بھی مطمعن کر دیا تھا.سچ کہتے ہیں !جوڑے تو آسمانوں پہ بنتے ہیں اگر ایک در بند ہو تو رب سو در کھول دیتا ہے صرف توکل کی ضرورت ہے .آج وہی رشتہ دار جو منہ موڑ چکے تھے .آج وہی زبیدہ بیگم کو گھیرے بیٹھے تھےکہ بیٹی کے سسرال والوں کو یہ انگوٹھی دو گی یہ تو کافی مہنگی لگ رہی ہے کیسے خریدی ہاں... دلہن نے  خود اپنا جہیز بنایا ہو گا .سنا ہے سکول میں ٹیچر تھی اور زبیدہ بیگم اس عورت کے لحجے کی کاٹ کو نظرانداز کر کے  بتا رہی تھیں کہ یہ اسکے ابا نے بنوائ تھی اور اسکے علاوہ وہ ناعمہ کے جہیز کے لئے بھی اچھی خاصی رقم چھوڑ گئے تھے اور پھوپھی اپنی کم نصیبی پر اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ جو دلہن وہ لائ تھیں اسکے تو زیور کی نقلی تھے اور بری کے علاوہ بہو کے جہیز سے کچھ بھی قیمتی نہ نکلا اور اس پر سے شکل بھی واجبی.آج زبیدہ بیگم کے توکل نے ان کو سرخرو کر دیا تھا.  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 comment:

sheenwrites.blogspot.com said...

thanks :) keep supporting