9/14/2017

شکوہ از تبسم

    

عید کو ایک مہینہ ہونے کو تھا  مگر یوں لگتا تھا کہ جیسے کل  کی 
 ہی کی بات ہو پورا مہینہ  دعوتوں اور دینے دلانے میں گزر  چکا تھا وہ صبح سے کچن میں تھی اور کچن کا بکھیڑا ختم ھونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔  بچوں کی بھی   سکول سے چھٹیاں تھیں اور صبح بھی کوئ عید کے سلسلے میں ہی ملنے آیا ہوا تھا۔ ثمرہ کا سسرال یوں تو مختصر تھا مگر  علی حسن  کے دوستوں  اور کولیگز کی لسٹ بہت لمبی تھی  جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔اس نے مہمانوں کے لیے ٹرے بھیجی اور بچوں کو کچن میں ہی بلا کر ناشتہ کروانے لگی۔" صحیح سے کھاو ایشل"۔اس نے سب سے چھوٹی بیٹی کو پکارا جو کھا کم رہی تھی اور گرا زیادہ رہی تھی۔ بڑے دو عاقل اور حمزہ اپنی پسند کا آلو کا پراٹھا بنوا کر کھا رہے تھے اور ایشل چونکہ چھوٹی تھی اس لیے ٹھیک  سے نہیں کھا سکتی تھی ابھی اس نے اسکو  گود میں لےرکھا تھا مگر پھر بھی وہ پلیٹ میں ہاتھ مار کر سب گرا دیتی۔                                                              
اتنے میں علی حسن کی  آواز آئ "ثمرہ میں نہانے جا رہا ہوں میرے کپڑے نکال دو۔۔۔۔" اس نے ایشل کو لا کر باہر تخت پر بیٹھی نفیسہ بیگم کو پکڑایا اور اندر کی طرف  بھاگی ۔.آج بہت دنوں سے مشین لگانے کا سوچ رہی تھی مگر بچوں میں وقت کا پتہ ہی نہ چلتا اس نے علی کے لیے سوٹ نکالتے ہویے مصمم ارادہ کیا کہ وہ آج ضرور مشین لگائے گی۔ سنیے! علی کے باہر آتے ہی ثمرہ نے اپنا مدعا بیان کیا۔  "عید کو مہینہ ہو چکا ہے گھر کا راشن بھی ختم ہےاور ایشل کو  ہلکا ذکام ہے۔ ایک تو آپ کے مہمان جانے کا نام نہیں لیتے یا پھر آپ خود باہر نکل جاتے ہیں ۔کل اماں بھی کہہ رہی تھیں کہ علی کو زرا میرا خیال نہیں" ثمرہ نے غفلت سے اپنے بال سنوارتے علی  سے کہا۔ ثمرا نے زرا سا وقت ملتے ہی اپنا دکھڑا اپنے دکھ سکھ کے سانجھی  سے کہہ دیا۔ علی نے زرا کی زرا اس پر نظر ڑالی پھر دوبارا آئینہ میں دیکھتے ہوے بولا ۔۔۔۔۔"اچھا یار تمہہیں تو  پتہ ہے کہ مہینہ ابھی شروع ھوا ہے۱۰ تاریخ سے پہلے تنخواہ نہیں ملے گی پچھلی تنخواہ تو قربانی کی وجہ سے پتہ ہی نہیں چلا۔ دو چار دن تو سنبھالو یار تنخواہ  ملتے ہی سارے حساب برابر کر دوں گا" ۔ وہ بیوی کے ماتھے پر بوسہ دیتا یہ جا وہ جا۔اور ثمرہ حساب لگا رہی تھی کہ ۱۰ تاریخ میں کتنے دن بچے ہیں اچھا زرا جلدی آئیے گا آج تو عاقل اور حمزا کی بھی  ٹیوشن سے چھٹی ہے میرا سر کھا جایئں گے اوکے"۔  "  ثمرہ کی شادی کو کافی عرصہ گزر چکا تھا علی حسن دو بہن بھائ  تھے۔ بہن پہلے سے شادی شدہ تھی اور شہر سے باہر بیاہی گئ تھی۔ گھر میں  صرف وہ اور اس کی ساس تھی جو کہ ثمرہ  کی پھوپھو بھی تھیں۔ نند کبھی کبھی عید کے عید یا پھر خاص مواقع پر آ جاتی تھی اور کچھ دن قیام کر کے چلی جاتی۔ابھی ثمرہ یہی حساب لگا رہی تھی کہ باجی شھلہ اور اس کے بچوں کو دینے میں کتنا خرچ ہو  گیا۔اس دینے دلانے کے چکر میں اکثر اسکے اپنے بچے اگنور ہو جاتے تھے۔ مگر علی حسن نے کبھی اس بات کو محسوس نہیں کیا بلکہ اگر ثمرہ اسکو سمجھانے کی کوشش کرتی تو وہ صاف کہہ دیتا کہ میری ایک ہی بہن ہے اسکو دینے میں تمہارا کیا جاتا ہے اور آتی بھی تو کبھی کبھار ہے وہ جل کلس کر رہ جاتی ۔علی حسن ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا ثمرہ کمیٹیاں ڈال کر کچھ گزارا کر لیتی تھی۔                                                                     اس نے ناشتے کا بکھیڑا سمیٹا اور برتن دھونے لگی اسکے بعد وہ جب اپنےلئے چائے بنا کر آئ تو اس وقت تک  کام والی بھی آ چکی تھی اسکے آتے ہی  اس نے صفائ کروائ اور مشین بھی لگا لی۔                                                    کبھی کبھی وہ سوچتی تھی اس سے ایسا کیا جرم سرزد ہو گیا  ۔پہلا جرم اس کا اس دنیا  میں آنے کا تھا اور دوسرا شادی کرنا۔ گھر میں دو  بہنوں کے  بعد  اسکا نمبر تھا اسلئیے اسکے حصے کا جو کچھ بھی ابا لاتے وہ بڑی  بہنیں ڈرا دھمکا کر چھین جھپٹ کر خود لے لیتیں اس نے سوچا کہ شادی کے بعد اپنے چاؤ ارمان پورے کرے گی مگر یہاں بھی اسے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا پڑتا تھا ۔میاں کا پیار اور چاو  صرف شروع کے دنوں میں تھا لیکن بچوں کی پیدائش کے بعد اسکے روئے میں بے  اعتنائ شامل ہونے لگی تھی  ۔بچوں سے خوب پیار کرتا ان کی  خوب دلار اٹھاتا، لیکن گھر کے انتظام و انصرام میں کہیں کوئی کمی پیشی رہ جاتی تو کئی دن ٽمرہ سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا تھا۔ اب بھی عید پر نند صاحبہ نے نجانے کیا بات کر دی تھی کہ وہ ثمرہ سے کیھنچا کیھنچا سا تھا۔ کتنی بار میکے جانے کا ذکر کر چکی تھی مگر مجال ہے جو کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ آج تو اس نے ٹھان  لی  تھی کہ بات کر کے ہی دم لے گی۔ حسن عاقل اور حمزہ سے ان کی روٹین کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ 
جب ثمرہ شام کی چائے لے کر اندر آئی  ساتھ میں کٹلس اور چکن رول بھی تھے۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد وہ شروع ہو گئ " علی ! مہینہ ہو گیا ہے عید کو مجھے امی کے یہاں جانا ہے" علی نے چہرے پر تھوڑی ناگواری لاتے ہوے کیا ضرورت ہے پیچھے امی کیسے سنبھالیں گی"۔ "میں زیادہ دنوں کا تو نہیں کہہ رہی۔ امی کب سے یاد کر رہی ہیں"۔ "اس دن جب شھلہ باجی آ ئ تھیں تم نے ٹھیک سے بات بھی نھیں کی  ان سے ھال احوال تک نہیں پوچھا جاتے ہوئے بھی مجھ سے شکوہ کر کے گئ ہیں کہ تم ان کو دیکھ کر منہ بنانے لگتی ہو"۔ "کیسی باتیں کر رہے ہیں علی آپ۔ میں نے شھلہ باجی سے کبھی پرائیوں والا سلوک نہیں کیا بے شک آپ امی سے پوچھ لیں۔ وہ تو ایشل کی وجہ سے ان کو زیادہ ٹائم نہیں دے پائ۔ آپ کو پتہ تو ہے یہ میرے نغیر کھانا بھی نہیں کھا سکتی"۔ "میری بہن کی عزت کیا کرو کبھی کبھار تو آتی ہے"۔ "ایک تو پورا مہینہ ان دعوتوں نے لے لیا اور بجائے مجھے دار دینے کے آپ شکوہ کر رہے ہیں۔ علی !"۔ "اچھا ٹھیک صبح       چلی جانا۔" اور ثمرہ نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ بات زیادہ نہیں بڑہی۔ 
آج جب وہ میکے کے لیے جا رہی تھی تو اس نے سوچا تھا کہ ماں کو علی کی شکایت کرے گی۔ اپنی تنگ دستی کا رونہ روئے گی لیکن اسکے دل نے یہ تمام کام کرنے سے خود کو انکاری پایا تھا۔ وہ واپس آتے وقت خود کو دنیا کی خوشحال ترین عورت محسوس کر رہی تھی کیونکہ اسکی بڑی دونوں بہنیں جو اس کی نصبت بڑے گھروں میں بیاہی گئ تھیں بڑی کی نا شکری نے اسکے گھر کے اچھے بھلے حالات کو خراب کر دیا تھا۔ آج کل اس کا میاں جاب لیس تھا اور دوسری میاں سے ناراض ہو کر گھر آ گئی تھی۔ صحیح کہتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان کا نا شکرہ پن اسکے اچھے حالات کو بھی نگل لیتا ہے اس کو یاد تھا کہ اس کی بہنیں اچھے گھروں میں آباد تھیں مگر جب بھی آتیں روتی ہوئ آتی تھیں اور آج واقعی ان کے حالات میں بدتری لکھ دی گئ تھی۔ اس لیئے اس نے اپنی ماں  کی بات  پلو سے باندھ لی کہ حالات  جیسے بھی ہوں انسان کو زبان پر شکوہ  نہیں لانا چاہیے اور اللہ  سے اچھے کی امید  باندھ لینی چاہیے اس سے نا صرف دل کو سکون ملتا ھے بلکہ وہ خوبصورت لمحات جو ہماری نا شکری کی نزر ہو جاتے ہیں ان سے ہماری زندگی کی رنگینی میں پھیکا پن آ جاتا ہے سونے سے پہلے نا صرف ثمرہ نے عشاء کی نماز کے بعد  اپنے گھر کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا بھی کی ۔
بچوں کے کمرے میں  وہ  اپنے بچوں پہ تسبیحات دم کر کے آئ تو علی اسکے نئے روپ پر نا  صرف دل سے خوش ہوا بلکہ اس سے اظہار بھی کر  بیٹھا۔  جب ثمرہ نے اس بات کا اظہار کیا تو علی اپنی کوتاہیوں کو یاد کر کے شرمندہ ہوا بلکہ اس سے معافی بھی مانگی  اس نے ثمرہ سے اس بات کا وعدہ لیا کہ میں اپنے بچوں کو کبھی نظر انداز نھیں کروں گا اور نا ہی ثمرہ کو۔ اور کیا چاہیے تھا وہ اتنے پر بھی اپنے شوہر پر نثار ہو گئ ۔  
                                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 



No comments: